Khud say khuda tak book pdf download-urdu book

you can read book on app by downloading app from playstore free khud say khuda tk by nasir iftikhar                                                           

khud say khuda tk pdf free download 

                    


 آج کا انسان روئے زمین پر تاریخ انسان کے سب سے حیرت ناک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ زمین پر جتنی بھی تہذیبیں گزری ہیں اُن میں سے سب سے زیادہ سہولت ، کشائش اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب بلا مبالغہ

 ہماری تہذیب ہے لیکن یہ بھی ایک دردناک حقیقت ہے کہ اس قدر بے پناہ ترقی اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کے باوجود عصر حاضر کے انسان سے زیادہ پریشان ، غیر محفوظ ، دباؤ کا شکار اینگزائٹی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی اور کوئی تہذیب اس سے پہلے زمین پر نہیں گزری۔ یہ تضاد ایک خوفناک حقیقت کی صورت میں آج ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہو چکا ہے


ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس قدر تیز رفتار ترقی کے بعد دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی ۔ جنگ ایک قصہ پارینہ قرار پاتی اور ہر طرف امن و آشتی کا دور دورہ ہوتا مگر ہم نے دنیا کو کیا بنا دیا ؟ ہر طرف مادیت پرستی دکھائی دیتی ہے۔ غربت افلاس رنج و الم، جنگ و جدل، ایٹمی دھماکوں کے لرزتے خدشات ظلم و نا انصافی کا دور دورہ، سپر پاورز کا عالمی تسلط جمانے کا خواب ، مسلمانوں کے زوال اور پستی کی خوفناک گھاٹیاں، رزق حرام کی کثرت، زنا کا عام ہو جانا ، میڈیا کا اذہان پر قابو پالینا ، موسموں میں غیر فطری تبدیلیاں ۔ ۔ ۔ یہ سب کیا ہے؟


کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ بڑھتی ہوئی ٹیکنا لوجی انسان کو پاگل پن کی طرف لے چلی ہے۔۔۔ ایسا پاگل پن جس میں مبتلا ہو کر وہ اپنی ہی دنیا کو برباد کرنے کے درپے ہو گیا ہے۔


بلا مبالغہ ہر آدمی ایک نفسیاتی مریض بن کر رہ گیا ہے ایک چلتی پھرتی لاش جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے۔۔۔ مزید ترقی ، مزید پیسہ، کاروبار میں اضافہ، بڑے مکان، بڑی گاڑیاں ۔۔۔ کیا یہ ہمارا مقصد زندگی ہے؟ کیا ہمیں اس لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے؟ ڈپریشن ٹینشن بنگزائٹی میں بلا مبالغہ ہر شخص گرفتار ہو چکا ہے۔ لوگ نیند کی گولیاں پھانک کر زندگی گزار رہے ہیں ۔ کثیر تعداد نفسیاتی امراض کا شکار ہو کر ذہنی امراض کے معالجین کے سامنے کھڑی اپنی زندگی کی بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہے


ہم ایک المیہ بن چکے ہیں۔ جو لوگ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں وہ زندگی کی دوڑ سے باہر کر دیئے جاتے ہیں، کارنر کر دیئے جاتے ہیں۔ کاروبار میں ناکامی ، طویل بیماری کسی اپنے کی اچانک موت کا نہ بھولنے والا صدمہ ، حد سے بڑھی ہوئی حساسیت ، محبت میں ناکامی، ملازمت اور کیرئیر میں ترقی نہ کر سکنے کا خوف، اعلی تعلیم حاصل نہ کر پانا، معاشی پریشانیاں اور لمبی  غربت ، اپنی شریک حیات سے ذہنی ہم آہنگی کا فقدان ، شکل وصورت کا معمولی ہونا،جسمانی معذوری یا عیب اور اس طرح کے بے شمار خوفناک مسائل سے جن لوگوں کا واسطہ نا پڑتا ہے اُن کی زندگی دوسروں سے بالکل الگ ہو جاتی ہے۔


ایسے لوگ جب اپنے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو کچھ نشے ، نیند کی گولی اور نفسیاتی دواؤں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور کچھ داڑھی رکھ کر شلوار ٹخنوں سے اونچی کر کے مسجد کو لپکتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو تصوف کو ایک محفوظ چھتری سمجھتے ہوئے  پیروں ، فقیروں اور بابوں کے در پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ زندگی جب بہت بوجھل ہو جائے تو اسے گزارنے کے لئے انسان کسی ایسے فارمولے، میتھڈ یا پناہ کی تلاش میں نکلتا ہے جس سے اسے یہ امید ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ بڑھتا یہ بوجھل پن دور ہو جائے گا


یہ خوش فہمی یہ گمان بہت سالوں قائم رہتا ہے لیکن انسان اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ یہ سب عارضی اور وقتی فائدہ ہے یہ صرف temporary relief ہے۔ نشہ یا کوئی بھی addiction اپنی اصل میں عارضی فائدہ ہے۔ اسی طرح مساجد میں ہمیں اکثریت ایسے باریش لوگوں کی نظر آتی ہے جو نماز تو پڑھتے ہیں مگر ان کے عمل اور روزمرہ زندگیوں پر اس کا کوئی اثر impact نظر نہیں آتا ۔ وہ نماز کیسی نماز ہے جو انسان کو انسان نہ بنا سکے۔ اگر طویل عرصہ نماز پڑھتے رہنے کے باوجود دل میں بغض، کینہ، حسد، پریشانی ، وسو سے اور پیسہ کمانے کی حد سے بڑھی ہوئی دھن موجود رہے ۔۔۔ اگر انسان نماز پڑھتے رہنے کے باوجود دوسرے انسانوں سے بے لوث محبت unconditional Love کا جذبہ اپنے اندر موجزن نہ پائے۔ اگر اللہ کی دوستی کی طلب پیدا نہ ہو تو اپنی نماز پر غور کرنا چاہئے ۔ ہم کیوں غور نہیں کرتے؟ کامیابی سے اس سوال کو نظر انداز کیوں کر دیتے ہیں؟

 Why we always successfully avoid this basic question?


نماز بہر حال ہر صورت میں فرض ہے لیکن اگر اس فرض کو محض ایک رسم کے طور پر اپنی زندگی میں شامل کر لیا جائے تو مقام غور ہے کہ کیا اللہ ہم سے صرف یہی چاہتا ہے؟ مسجدوں سے باہر نکلتے ہی جھوٹ بولنا، ریا کاری کرنا کیا یہ اس بات کی نشاندہی نہیں کہ ہم نے بالآخر نماز کو بھی صرف ایک نفسیاتی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے؟


تصوف کے دربار میں داخل ہونے والے سائلین کو دیکھیں۔۔۔ مراقبے، چلے ، ریاضتیں ، میلاد، یہ عمامے، یہ دستاریں ہمیں کدھر کو لے کر جاتی ہیں؟ ایک ہی بات ہے۔۔۔ شریعت ہو یا تصوف اگر رستہ ٹھیک نہیں ، نیت ٹھیک نہیں اگر حصول علم مرکز خیال نہیں تو سب خام خیالی ہے کوئی حاصل نہیں ہے، سب رائیگانی ہے اور وہ بھی عمر عزیز کی ۔ جس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ علاج کرنا چاہئے مگر یہ حقیقت ہے کہ جب دماغ کسی کا خراب ہو جائے جب psychosis بگڑ جائے تو اسے اللہ کے سوا اور کوئی ٹھیک نہیں کر سکتا۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ ڈپریشن کا مریض نفسیاتی معالج کے پاس جائے anti depressent لے اور کچھ عرصہ میں ٹھیک ہو جائے۔ یہ مجھ سے کبھی نہیں ہو گا کہ کوئی بے خوابی کا شکار ہو کر نیند کی گولیاں لینا شروع کرے اور کچھ عرصہ بعد اس کی قدرتی نیند بحال ہو جائے اور پھر بتدریج وہ گولی کے اور anti depressent medicines بغیر سونا شروع کردے۔   sleeping pills انسان کو بتدریج پہلے سے بدترین نفسیاتی خلجان میں مبتلا کرتی ہی‏ں یہ ایک حقیقت                                                                                                              یہ عارضی فائدہ temporary relief ہے   

۔ اس طرح ہر وقت فلمیں دیکھنے والا جب اچانک داڑھی رکھ کر گھر سے ٹی وی اٹھاتا ہے۔ عورت یا نشے کے چکر میں رہنے والا جب پیر سے بیعت کر کے خود کو صوفی سمجھتے ہوئے سماع سنتا حال کھیلتا ہے۔ یہ سب عارضی فائدہ ہوتا ہے۔ یہ فرار escape ہوتا ہے۔ کچھ لوگ شدید محنت میں خود کو غرق کر لیتے ہیں workholic ہو جاتے ہیں۔ دن رات کام کرتے رہتے ہیں۔ مقصد بڑا ہو انسانیت کی خدمت پیش نظر ہو تو یہ بہت بڑی طاقت ہے لیکن اگر اس کا مطمع نظر صرف اپنی ذات ہے تو یہ بہت خطرناک نفسیاتی بیماری ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد ایسے انسانوں کی کثیر تعداد بھی نظر آئے گی جو روٹین میں پناہ لیتے ہیں نو سے پانچ کام کرنے والے لوگ ۔ یہ لوگ غور و فکر کو دھتکار دیتے ہیں اور صرف اپنی روٹین کو فالو کرتے ہیں۔ روٹین بری چیز نہیں مگر اس کی پوجا کرنے والا ، حد سے باہر نکلنے والا، غور وفکر نہ کرنے والا کولہو  کا بیل کہلاتا ہے۔


اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی نظر آتے ہیں جو اللہ کو پانا چاہتے ہیں اور اس تلاش میں جب وہ نکلتے ہیں تو انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ مسند پر بیٹھا ہوا ہر شخص اللہ کا دوست ہے۔ جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہوتی۔ ایک سے ایک بھیڑ یا رستے میں ان کا شکار کرنے کیلئے تاک میں ہوتا ہے۔ جتنی طرز کے انسانوں کا ذکر کیا ہے جتنے گروہ ہیں یہ جب نکلتے ہیں تو ان کا شکار کھیلا جاتا ہے لوگوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک فنکار اپنی دکان سجائے ان کے استقبال کیلئے کھڑا ہوتا ہے۔ بچتا صرف وہ ہے جو علم والا ہے بے علم تو صرف شکار ہے۔ یہ بڑے بڑے مذہبی اجتماعات عظیم الشان عرس ، عالمانہ جذباتی تقریریں، فیس بک اور یوٹیوب پر جذبات سے اندھی ہوئی   


آوازوں میں رلا دینے والے بیانات - مقصد اختلاف برائے اختلاف ہر گز نہیں یہ سباچھی باتیں ہیں سوال یہ ہے کہ آپ کو آج تک اس سے حاصل کیا ہوا ہے؟ اپنی آج تک کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں اگر نیت استوار نہ ہو تو کیا یہ سب محض روحانی تفریح spiritual entertainment نہیں ہے؟ کیا اس کی حیثیت محض آنسو گیس tear gas کی سی نہیں ہے؟ تھوڑی دیر کیلئے آنکھوں میں آنسو اور پھر وہی پرانی ڈگر۔۔۔؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب رائیگاں ہے تو پھر ٹھیک کیا ہے؟ حل کیا ہے؟ آخر ڈ پریشن، ٹینشن اور اینگزائٹی سے نجات کیسے ممکن ہے اور پھر سارے سوالوں کا ایک سوال یہ کہ اللہ کو کیسے پایا جا سکتا ہے؟ اللہ کی تلاش کیسے ممکن ہے؟ اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ان سب سوالوں کے جوابات حاصل کریں۔


انسان خود کو سمجھے، خود کو جانے ، میں کون ہوں؟ میرا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ میرا رب کون ہے اور مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ میرا ڈ پریشن کیا ہے؟ مجھے اتنی بے چینی کیوں ہے؟ اس بے پناہ اداسی کا سبب کیا ہے؟ مجھے آخر کس شے کی تلاش ہے؟ اگر ہمیں ان سوالوں کے جواب مل جائیں تو ہم آزاد ہو سکتے ہیں ہر فکر سے ہر پریشانی سے حتی کہ بہت سی بیماریوں سے بھی۔  یہ کتاب نفس پر لکھی گئی ہے۔۔ نفس کی کوئی جنس نہیں ہے۔۔۔ یہ genderless ہے۔۔ نفس نہ مرد ہے نہ عورت ۔۔۔ اس کتاب کا مخاطب نہ تو مرد ہے اور نہ عورت بلکہ  انسان کا نفس ہے اور نفس ہر انسان میں ایک ہے۔۔۔


یہ کتاب آپ پر لکھی گئی ہے۔۔۔ یہ آپ کو بتائے گی کہ آپ کون ہیں؟ اسے پڑھ لینے کے بعد آپ کے اندر بے پناہ تبدیلی آئے گی۔ آپ کا زاویہ نظر بدل جائے گا ، بڑھ جائے گا۔ علم حاصل ہوگا اور اس علم کی مدد سے آپ خود کو بدل ڈالنے میں اللہ کے فضل سے کامیاب ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ کتاب آپ کو مایوسی depression سے نکال کر اللہ سے روشناس کروائے گی-

khud se khuda tk pdf download


اپنی تلاش کے سفر میں اللہ نے جو علم مجھے عطا کیا اس کے اکتساب کے دوران مجھے بے پناہ شدت سے اس امر کا احساس ہوتا رہا کہ ہمارے ہاں کوئی ایسا ذریعہ علم source of knowledge موجود نہیں جو ہمیں حقیقت سے روشناس کرے ۔ کوئی ایسی آسان کتاب موجود نہیں جو ہمیں ہماری نفسیاتی الجھنوں سے نکال کر اللہ کے سامنے لے جا کھڑا کرے۔ بد قسمتی کی انتہا ہے کہ اُستاد ہی میسر نہیں اور جو ایک دو موجود ہیں ان پر خلقت کا اتنا ہجوم ہے اُن کی ذمہ داریاں اتنی بڑی ہیں کہ عام آدمی کی ان تک رسائی کا ردشوار ہے اور اگر ہو بھی جائے تو تنگی وقت کا کیا علاج کہ ایک انار ہے اور سارا جہان بیمار ہے۔



ایسی مایوس کن صورت حال اور ایسے عظیم قحط الرجال میں اللہ مجھ ایسے کم علم سے یہ خدمت لے رہا ہے یہ میرے لئے      سعادت عظیم ہے ۔ پوری دیانتداری سے ترسیل علم کرنے کی کوشش کی ہے۔


اللہ اس حقیر کی کاوش کو سند قبولیت عطا فرمادے تو آخرت میں بخشش کا سامان ہو جائے گا کہ اور تو دامن میں کچھ ہے نہیں ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے محشر کی تہی دامنی میں یہ کتاب اثاثہ بنے کہ اگر اس کے طفیل کوئی ایک بھی مراد کو پہنچا تو گناہ گار کی مغفرت کے لئے ان شاء اللہ کافی ہو جائے گا۔ یہ کتاب اسی ایک کیلئے لکھی ہے اور وہ ایک آپ ہیں۔


اللہ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔


ہر ممکن کوشش کی ہے کتاب کو سادہ اور عام فہم زبان میں لکھا جائے تا کہ عام آدمی اپنے مسئلے کو سمجھ سکے اور خود کو بدل سکے پھر بھی کچھ موضوعات اور مقامات ایسے تھے کہ دقیق گفتگو کئے بنا  چارہ نہ تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ذاتی طور پر احسان مند ہوں اور شکر گزار ہوں اُستاد محترم جناب ( پروفیسر احمد رفیق اختر ) کا جنہوں نے خدا کی پہچان کو جاتے درست رستے کی نشاندہی کی اور خُدا کی ذات سے روشناس کر دیا۔ اُستادِ محترم نے مجھ پر ایسے بے شمار احسانات کیے ہیں جن کا صلہ اور جزا انہیں اللہ تعالیٰ ہی عطا کر سکتا ہے۔ گمراہی اور غفلت کی گہری کھائیوں سے نکال کر مجھے حیوان سے انسان ہو جانے کی اُمید دکھائی تعلیم دی اور اللہ کے رستے پر گامزن کر دیا۔ اُستادِ محترم دور جدید کے ممتاز سکالر اور عارف ہیں جن کے بلند ترین خیالات کی روشنی سے موجودہ دور کی صبح نو کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ آپ اس مطالعاتی اپروچ کے مالک ہیں جو کسی بھی خیال کو عقلی دلیل اور مروجہ سائنسی اصولوں کی کسوٹی پر پرکھے بغیر ہرگز کسی صورت مطمئن نہیں ہوتی۔


اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اُستادِ محترم کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے کہ قحط الرجال کے اس دور میں استاد کے دم قدم سے اُن کے شاگردوں کا اطمینان وابستہ ہے۔ اس کتاب میں اُستادِ محترم کے مقالات theses مقدمة القرآن، انسان سوچتا نہیں، اللہ ترجیح اول ، بخل جان اور چند دیگر حوالہ جات سے بھی کچھ جگہوں پر استفادہ کیا  ہے۔ جس کیلئے اُن کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔


محمد ناصر افتخار


03334043841 :رابطہ موبائل


nasir@khudsaykhudatak.pk :ای


برائے مہربانی مصنف سے کتاب مکمل کرنے کے بعد رابطہ کریں ۔ دوران مطالعہ فطری طور پر بہت سے ایسے سوالات لا محالہ آپ کے ذہن میں پیدا ہوں گے جن کے جوابات کتاب میں مختلف مقامات سے گزرتے ہوئے آپ کو مل جائیں گے اس لئے بہتر ہے دوران مطالعہ ذہن میں ابھرنے والے سوالات کو ایک صفحے پر لکھتے جائیں ۔ مطالعہ ختم ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی اشکال باقی رہ جائے تو رابطہ کیجئے۔ اس ضمن میں ایک گزارش یہ بھی ہے کہ وقت طے کیے بغیر براہ راست کال یا ٹیکسٹ میسج کرنے سے گریز کریں کیونکہ مصروفیت کی وجہ سے فوری جواب دینا مصنف کیلئے ممکن نہیں اس لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ او پر دئیے گئے موبائل نمبر پر وٹس ایپ وائس میسج میں اپنا مکمل سوال، پیغام ریکارڈ کر کے بھیج دیں اور اپنی باری کا انتظار کریں۔ آپ کے میسیج کے مطابق مصنف کی جانب سے یا تو آڈیو جواب بھیج دیا جائے گایا  کال کرنے کا وقت بتادیا جائے گا-

Comments